Sunday 13 April 2014

How to Stop Thinking About Sex


سیکس کے بارے میں سوچنا ایک حد تک بہت قدرتی بات ہے انسان سیکس کے ہارمونز رکھتا ہے اور اور اس میں سکیکس 

کرنے کی خواہش اور صلاحیت موجود ہے اور یہ ایک قدرتی امر بھی ہے مگر بعض دفعہ سیکس کے بارے میں خیالات 

آپ کے دماغ پر چھائے رہتے ہیں خاص طور پر نوجوان افراد کے لئے ایسے حالات میں بہت مشکل ہو جاتا ہے کہ وہ 

اپنے خیلات پر کنٹرول کرسکیں اور زہنی یکسوئی نہ ہونے کی وجہ سے بہت سارے معمالات میں خرابیاں پیدا ہو جاتی 

ہیں بجائے تعمیری کاموں میں نوجوانوں کا ذہن غلط کاموں کی آمجگاہ بن کر رہ جاتا ہے ہم آپ کو کچھ ایسے آسان اور 

زود اثر طریقوں کے بارے میں بتانے جا رہیں ہیں جن کو استعمال کر کے آپ اس عادت بد سے چھٹکارا پانے کی کوشش 

کر سکتے ہیں

Avoiding Triggers
اگر کسی خاص شخص کی موجودگی، دن کے کسی خاص وقت یا کوئی ایسے جذبات جن سے آپ میں ہیجان آمیز سیکس 

کا رجحان بہت زیادہ ہو جائےایسے تمام معمولات اور واقعات کا مشاہدہ کریں جو آپ کو ذہن کو اس حالت  کی طرف لے 

کر جاتے ہیں یہاں آپ سیکس کے بارے بہت زیادہ سوچتے ہیں 
شاید ایسا اس وقت ہوتا ہو جیسے 
سکول، کالج کی کوئی مخصو ص کلاس کے اوقات میں 
بس میں سفر کرتے ہوئے 
صبح اٹھتے وقت 
جب آپ مخالف جنس جیسے مرد عورتوں کی موجودگی میں یا عورتیں مردوں کی موجودگی میں 
جب آپ کام پر ہوں 
انٹرنیٹ استعمال کرتے ہوئے 
فون پر کسی سے بات کرتے وقت 
اسی طرح آپ خود یہ مشاہدہ آسانی سے کر سکتے ہیں کہ روزمرہ کے وہ کون سے معلومات ہیں جب آپ کا رجحان 

زیادہ سکیس کی طرف ہوتا ہے ان کو معلومات کا باریک بینی سے مشاہدہ کریں اور ان کی لسٹ بنا لیں

Avoid your triggers by anticipating them.
فرض کریں آپ سکول میں یا کالج میں ریاضی یا کیمسٹری یا کسی ایسے ہی سنجیدہ مضمون  کی کلاس لیتے وقت استاد 

کی باتوں پر دھیان نہیں دے پاتے اس کی بجائے آپ بور ہو رہے ہوتے ہیں اور آپ کا زہن بھٹک کر کسی فلم  وغیرہ کے 

ایسے سین کی طرف چلا جاتا ہے جو ہیجان انگیز تھا تو قدرتی بات ہے آپ کا ذہن بھی سیکس کی طر ف مائل ہو جاے گا 

اب آپ اپنی کنسٹریشن کھو دیتے ہو 
اس طرح کی حالت کا بہترین حل یہ ہو تا ہے کہ بجائے صرف سننے کے لیکچر کے دوران آپ اپنی پوری توجہ اپنے 

لیکچرر کی طرف رکھیں اور اپنے پین یا پنسل سے اہم پوائینٹس کو نوٹ کرنا شروع کرد یں اس طرح آپ کا ذہن سیکس 

کی بجائے اپنے لیکچر کی طرف ہونا شروع ہو جائے گا اور آپ کی توجہ آپنے دماغ کی بجائے اپنے ہاتھ پر ہو جائے گی جس سے آپ لکھ رہیں ہیں 
اسی طرح کے ملتے جلتے اقدامات آپ اپنے دوسرے معمولات میں بھی اپنا سکتے ہیں 
Make it difficult to look at pornography. 
انٹر نیٹ ، مو بائل اور اسی طرح کی دوسری اشیا سے جتنا فائدہ ہو ا ہے اتنا نقصان بھی ہوا ہے کہ اب سیکس اور پورن فلموں تک رسائی بہت آسان ہو گئ ہے اور اب تو انڈین اور پاکستانی فلموں میں بھی ایسے بولڈ مناظر پیش کئے جاتے ہیں کہ خدا کی پناہ اپنے کمپیوٹر میں ایسے سافٹ وئیر جیسے کے فائر وال ہے سے پورن والی سائٹس کو بند کیا جا سکتا ہے اور ایسی فلموں ، ڈراموں سے اجتناب کریں کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کا استعمال گھر کے دوسرے افراد کے سامنے کرنے کی کوشش کریں تا کہ تنہائی میں شیطان آپ کو بہکا کر سیکس کی طرف آپ کا رجحان نہ لے جا سکے 

Replace your triggers with other things
آایسےتمام مشاغل جن کو کرتے وقت آپ سیکس کی طرف چلے جاتے ہیں ان کو دوسری پسندیدہ ترین مصروفیات میں تبدیل کر لیں جیسے کہ 
انٹرنیٹ کی بجائے کوئی اچھی مذہبی یا تاریخی کتب کا مطالعہ
ٹی وی پر رومانوی فلم یا ڈرامہ دیکھنے کی بجائے کھیل یا سائنس کا کوئی چینل دیکھ لیں 
اسی طرح شام کے اوقات میں گھر فارغ رہنے کی بجائے آپ کھیل میں مصروفیت حاصل کر سکتے ہیں 
Don't beat yourself up
سیکس کے متعلق سوچنا بلوغیت اور نو جوانی کا ایک بہت بڑا حصہ ہے اور آپ کو اس کے متعلق بوجھ یا گناہ محسو س نہیں کرنا چاہیے یہ ایک قدرتی عمل ہے لیکن یہ محسوسات اس وقت مسئلہ بن جاتے ہیں جب آپ اپنے آپ کو سیکس کے علاوہ کسی اور بات پر فوکس کرتا ہو ا نہں پاتے 
Be creative 
اپنی سیکس ڈرائیو کو کسی تخلیقی مشغلہ سے بدلنے کی کوشش کریں ان اوقات میں جب آپ سیکس کے بارے زیادہ سوچتے ہیں آپ کسی کارآمد مشغلہ کو اپنائیں جیسے رائٹینگ، پینٹنگ،  یا باغبانی وغیرہ ایسا کوئی مشغلہ جو آپ کو کشش کرتا ہو گا آپ کے ذہن کو تروتازہ رکھے گا کیونکہ پھر آپ سیکس کی بجائے اپنے من پسند مشغلہ کے بارے زیادہ سوچ رہیں ہوں گے 
Distract yourself with exercise
اگر آپ کوئی تخلیقی کام یا دل پسند مشغلہ نہیں اپنا سکتے تو اپنے آپ کو ورزش میں مصروف کرلیں اور اگر آپ سخت ورزش کر رہے ہوں تو آپ کا زہن تب بھی کسی اور طرف نہیں جا سکتا 


Cultivate a healthy sex life
اگر آپ شادی شدہ ہیں تو اپنے پارٹنر سے اس کے بارے مکمل تفصیل سے بات کریں اور آپس میں ایسا جنسی تعلق ضرور برقرار رکھیں جو آپ دونوں کو مطمئن رکھ سکتا ہو ۔
اگر آپ سیکس کرنے کے باوجود اس  کے بارے میں ضرورت سے زیادہ سوچ رہے ہیں تولازمی بات ہے کی آپ کی ازدواجی زندگی جنسی لحاظ سے مکمل نہیں ہے اس میں کوئی نہ کوئی پچیدگی ضرور ہے اور اس کا آسان ترین حل میاں بیوی کے درمیان اس کے متعلق کھل پر بات کرنے سے یہ مسئلہ بہت حد تک دور ہو سکتا ہے 
اپنی سیکس کے خواہش کو پر محبت اور کیرنگ کرنے والے پارٹنر کے طور پر بدلیں 

اگر آپ اپنے آپ کو حد سے زیادہ سیکس کی خواہش محسو س کرتے ہوئے پاتے ہیں تو اپنے پارٹنر سے اس بارے کھل کر بات کریں میاں بیوی دونوں کو کھل کر اس لحاظ سے ایک دوسرے کی پسند ، ناپسند کا مکمل علم ہو نا چاہیے

Talk to your Children
والدین کو چاہے کے وہ اپنے بچوں سے ایسا رویہ اپنائیں کہ وہ ان سے ہر مسئلہ پر کھل کر بات کر سکیں اور بچیں کیونک ٹین ایجز جب وہ تیرہ سے سولہ سال کی عمر میں خاص طور پر ہوتے ہیں ان کو بہت زیادہ راہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے عام طورپرباپ کو لڑکے اور ماں کو لڑکی سے ان مسائل پر ان کی درست سمت میں راہنمائی کرنی چاہیے 
Tell a trusted friend about your problem

یہ سب سے زیادہ موثر اور طاقتور اثر رکھنے والا طریقہ ہےاگر آپ سمجھتے ہو کہ آپ کوئی  بھائی کزن یا دوست ایسا ہمراز ہے جس پر آپ مکمل اعتماد کر سکتے ہوں تو اس سے اپنے ان مسائل پر کھل کر بات کریں تا کہ وہ آپ کی درست راہنمائی کر سکے مگر خیال رہے کہ بری صحبت یا عادت رکھنے والے افراد سے ایسے مسائل پر بات نہ کریں کیونکہ ہو سکتا ہے بعد میں آپ کے لیے مسائل پیدا ہو جائیں 
Talk to a religious advisor or scholar
اگر آپ کی سیکس کی خواہشات اس حد تک بڑھ چکی ہیں کہ آپ کہ مذہبی معمولات میں بھی حائل ہو رہی ہیں تب کسی عالم دین سے اس بارے بات کریں 
یاد رکھیں سیکس کی خواہش ایک قدرتی امر ہے اور اس میں کوئی ایسی شرمندگی کا عنصر نہیں ہے اس لیے کھل کر اپنے اس مسئلہ پر عالم دین ، سکول کے استاد یا ایسے کسی بڑھے سے بات کریں وہ ضرورآپ کو سیدھی راہ دکھائے گا 
ہمارے معاشرے میں جنسی مسائل کاحد سے زیادہ ہو جانے کی بہت بڑی وجہ جنسی مسائل پر درست راہنمائی کا نہ ہونا ہے حالانکہ ان مسائل پر جتنی مکمل اور مفصل بحث قرآن پاک اور احادیث میں موجو دہے دنیا کے اور کسی بھی مذہب میں نہیں ہے 
وقت کا تقاضا ہے کہ ہماری نوجوان نسل کو بہتر اور وہ مسائل جن کا ہمارہ دین کھل کر اظہار کرتا ہے اس کا مطالعہ کروایا جائے کیونکہ زیادہ تر نوجوان نسل جو کچھ فلموں، ڈراموں ، وغیرہ میں دیکھتی ہے اسے ہی درست جنسی تعلیم سمجھ کر 
اپنے آپ کو گمراہی کی سمت دھکیل چکی ہے 
کسی بھی قسم کی مزید راہنمائی اور معلومات کے لئے ہم سے رابطہ کریں اپنی کسی بھی جنسی ، غیر جنسی ، صحت کے مسائل کے حل کے لیے گھر بیٹھے بذریعہ ڈاک دوائی تجویز کروائیں اور گھر بیٹھیں حاصل کریں
رابطہ نمبر 
0300-8263288
0321-7532336
       0345-6160043       
    
 

اولاد نہ ہونے طبی کے اسباب


اولاد نہ ہونے  طبی کے اسباب۔


اگر کسی جوڑے میں درجِ ذیل اُمور پائے جائیں تو اِسے بانجھ پن کہا جاتا ہے۔از
 اگر عورت کی عمر 34 سال سے کم ہو اور یہ جوڑا کسی مانع حمل دوا یا طریقے کے بغیر جنسی ملاپ کرتا ہو اور اِس کے باوجود 12 ماہ کی مُدّت میں حمل قائم نہ ہُوا ہو۔
 اگر عورت کی عمر 35 سال سے زائد ہو اور یہ جوڑا کسی مانع حمل دوا یا طریقے کے بغیر جنسی ملاپ کرتا ہو اور اِس کے باوجود 6 ماہ کی مُدّت میں حمل قائم نہ ہُوا ہو۔
 اگر متعلقہ عورت میں اپنے حمل کو تکمیل تک پہنچانے کی صلاحیت نہ ہو۔
عورتوں میں بارآوری کا عروج بیس سے تیس سال کی عمر کے دوران ہوتا ہے ۔اِس عمر میں اچھی جسمانی صحت رکھنے والے جوڑے جو باقاعدگی سے جنسی سرگرمی کرتے ہوں تو اُن کے لئے حمل ہونے کا اِمکان ہرماہ 25 سے 30 فیصد ہوتا ہے۔عورتوں کے لئے تیس سے چالیس سال کی عمر کے دوران ،خاص طور پر 35 سال سے زیادہ عمر کے بعد، حاملہ ہونے کا اِمکان ہر ماہ 10 فیصد سے کم ہوتا ہے ۔
بانجھ پن کا سبب کیا ہوتا ہے؟
بانجھ پن کا سبب عورت یا مَردیا دونوںکے جسمانی مسائل ہو سکتے ہیں۔بعض صورتوں میں اسباب معلوم نہیں ہوتے ۔
عورتوں کے عام عوامل/مسائل
 انفکشن یا سرجری کے نتیجے میں نَلوں کو نقصان پہنچنا۔
 بچّہ دانی کے اندر رسولی ہونا۔ یہ غیر عامل ٹیومرز ہوتے ہیں جو بچّہ دانی کے عضلات کی تہوں سے پیدا ہوتے ہیں ۔
 Endometriosis اِس کیفیت میں بچّہ دانی کی اندرونی تہوں سے مماثلت رکھنے والے عضلات بچّہ دانی سے باہر پیدا ہوجاتے ہیں اور اِ سی وجہ سے درد پیدا ہوتا ہے ،خاص طور پر ماہواری کے دِنوں میں یا جنسی ملاپ کے دوران۔
 بچّہ دانی کے مُنہ سے خارج ہونے والی خلافِ معمول رطوبت۔ اِ س کیفیت میں بچّہ دانی کے مُنہ سے خارج ہونے والی رطوبت بہت گاڑھی ہوجاتی ہے ،جس کی وجہ سے منی کے جرثومے بچّہ دانی میں داخل نہیں ہوپاتے۔
 منی کے جرثوموں کے لئے اینٹی باڈیز کاپیدا ہوجانا، یعنی عورت میں اپنے ساتھی کے منی کے جرثوموں کے خلاف اینٹی باڈیز پیدا ہوجاتی ہیں۔
 جنسی طور پر منتقل ہونے والے امراض مثلأٔ کلیمائیڈیا ، سوزاک، وغیرہ ۔بانجھ پن کے اِن اسباب کو ختم کیا جاسکتا ہے۔
 اگر جنسی طور پر منتقل ہونے والے امراض کا علاج نہ کروایا جائے تو عورتوں میں 40 فیصد تک نچلے پیٹ کی سُوجن (PID) کا مرض پیدا ہو سکتا ہے،جو بانجھ پن کا سبب بنتا ہے اور نَلوں کے عضلات کی بناوٹ میں خرابی پیدا ہوتی ہے۔
 جنسی طور پر منتقل ہونے والے امراض مثلأٔ کلیمائیڈیا ، سوزاک، وغیرہ ۔بانجھ پن کے اِن اسباب کو ختم کیا جاسکتا ہے۔
 ٹی بی کی وجہ سے جسم کے مختلف نظام،بشمول عورتوں اور مَردوں کے تولیدی نظام متاثر ہوتے ہیں،اور بانجھ پن پیدا ہوتا ہے ۔
 ہارمونز کا عدم توازن
۔ تھائیرائڈہارمون کی مقدار میں تبدیلی ہونا(گردن میں سامنے کی جانب واقع ایک چھوٹے غدود سے خارج ہونے والا ہارمون جو خون میں شامل ہوجاتا ہے)۔ ۔ prolactinoma نامی دِماغ کے ایک ٹیومر کی وجہ سے ،prolactin نامی ہارمون کی افزائش زیادہ ہوتی ہے۔یہ کیفیت عام طور پر galactorrhea (چھاتیوں سے دُودھ رِسنے کی کیفیت) سے منسلک ہوتی ہے ۔
 اِنسولین نامی ہارمون کی افزائش زیادہ ہونا۔
 ذیابیطیس mellitus اور
 کلاہ گردہ کے غدود (adrenal gland) کی عدم فعّالیت (کام نہ کرنا)۔
 زائدوزن یا کم وزن کی کیفیت ہونا۔
 Polycystic Ovarian Syndrome (PCOS) بچّہ دانی میں متعدد گلٹیاں ہونے کی کیفیت۔ اِس کیفیت میں،انڈوں کے پختہ ہونے اور اِن کے اخراج کا عمل نہ ہونے کی وجہ سے حمل نہیں ہوپاتا ، بچّہ دانی کے اندر متعدد گلٹیاں پیدا ہوجاتی ہیں ۔
 مُٹاپے کی وجہ سے انڈوں کے اخراج کا عمل درست طور پر نہ ہونا ، تھائیرائڈ کی عدم فعّالیت (کام نہ کرنا)، بلوغت کی عمر (13 سے 16 سال)یا ماہواری بند ہونے کی عمر (40 سے 45 سال)۔
 نفسیاتی مسائل، مثلأٔ جذباتی لحاظ سے معاونت کی کمی کی وجہ سے پیدا ہونے والی تشویش کے نتیجے میں ہارمونز کے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں جن کی وجہ سے عورت کی بارآوری کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔
مَردوںں کے عام عوامل/مسائل
مَردوں کے بانجھ پن کا سبب اکثر اوقات منی کے جرثوموں کی تعدا کا کم ہونا یا جسمانی نقص ہوتا ہے ۔دِیگر عوامل میں منی کے جرثوموں کی حرکت کا انداز ،یا منی کے جرثوموں کی بناوٹ میں نقص ہونا شامل ہیں۔
مَردوں کے جسمانی نقائص
 Hypospadias اِس کیفیت میں پیشاب کی نالی میں پیدائشی طور پر نقص ہوتا ہے جس کی وجہ سے پیشاب کا سوراخ خلافِ معمول جگہ پربنتا ہے یعنی عضو تناسل کے نیچے کی جانب یہ سوراخ ہوتا ہے ۔
 Vericocele اِس کیفیت میں خُصیوں کی تھیلی کی نَسیں پھیل جاتی ہیں جنہیں ہاتھ سے چُھو کر محسوس کیا جاسکتا ہے ،اور ایسامحسوس ہوتا ہے کہ گویا یہ کیڑوں سے بھری ہوئی چھوٹی تھیلی ہو۔
 Peyronie’s Disease اِس مرض میں عضو تناسل کی بناوٹ میں بہت زیادہ خم ہوتا ہے اور اِس خم پر کچھ سختی سی محسوس ہوتی ہے خواہ عضو تناسل تناؤ کی حالت میں نہ ہو۔اِ س کیفیت میں جنسی ملاپ کے دوران درد ہوتا ہے اور آخر کار بانجھ پن پیدا ہوجاتا ہے۔
غیر متوقع بانجھ پن
تقریبأٔ 15فیصد صورتوں میں بانجھ پن کی تحقیق کے نتیجے میں کوئی نقائص ظاہر نہیں ہوتے۔ایسی صورتوں میں نقائص کی موجودگی کا اِمکان تو ہوتا ہے لیکن موجودہ دستیاب طریقوں سے اِن کا پتہ نہیں چلایا جاسکتا۔ممکنہ طور پر یہ مسائل ہوسکتے ہیں کہ بیضہ دانی سے،بارآوری کے لئے مناسب وقت پر انڈوں کا اخراج نہیں ہوتا ،یابیضہ نَل میں داخل نہیں ہوتا،مَرد کی منی کے جرثومے انڈے تک نہیں پہنچ پاتے ہوں، بارآوری نہ ہو سکتی ہو، بارآور ہوجانے والے انڈے کی منتقلی میں خلل واقع ہونا، یا بارآور انڈہ کسی وجہ سے بچّہ دانی کی دیوار کے ساتھ منسلک نہ ہو سکے۔انڈے کے معیار کو اب پہلے سے زیادہ اہمیت دی جارہی ہے اوریہ کہ زیادہ عمر والی عورتوں کے انڈوں میں نارمل اور کامیاب بارآوری کی صلاحیت کم ہوتی ہے
چھلہ
 غیر محفوظ جنسی ملاپ کے بعد غیر مطلوبہ حمل سے بچنے کے لئے، یہ گولی 72 گھنٹوں کے اندرلینے کے باوجودمتعلقہ عورتوں میں سے 1 سے 2 فیصد عورتیں حاملہ ہو جاتی ہیں۔
 ایمرجنسی میں اِس آلے کو بچّہ دانی میں رکھنا نہایت مؤثر ہے۔ اگر غیر محفوظ جنسی ملاپ کے بعد 7 دِن کے اندر یہ آلہ استعمال کیا جائے تو 99.9 فیصد تک حمل روکنے میں مؤثر ہوتا ہے ۔
عورتوں کے درجِ ذیل عوامل /مسائل بانجھ پن کا سبب بن سکتے ہیں۔۔
ایک سال کے عرصے میں ، باقاعدگی سے ، کسی احتیاطی تدبیر کے بغیر جاری جنسی سرگرمیوں کے باوجود ،حمل قرار نہ پانے کویا حمل کو اس کی تکمیل تک جاری نہ رکھ سکنے کی حالت کو بانجھ پن کہتے ہیں ۔
عورتوں میں بارآوری کی بلند ترین شرح اُن کی عمر کی تیسری دہائی کے اوائل میں پائی جاتی ہے۔باقاعدگی سے جنسی سرگرمیاں کرنے والے صحت مند جوڑوں کے لئے، عمر کے اِس حِصّے میں،حاملہ ہونے /حاملہ کرنے کا ا ہر ماہ 25 سے30فیصد تک اِمکان ہوتا ہے۔ تیس سال ،خصوصأٔ پینتیس سال کے بعد عورتوں کے حاملہ ہونے کا اِمکان 10فیصدماہانہ سے کم رہ جاتا ہے۔
بانجھ پن کا سبب کیا ہے؟
بانجھ پن کا سبب عورت یا مَرد یا دونوں میں ہوسکتا ہے۔بعض صورتوں میں سبب کا تعین نہیں کیا جاسکتا۔
عورتوں میں پائے جانے والے بعض اسباب ،جو بانجھ پن پیدا کرتے ہیں یا اِ س میں معاون ہوتے ہیں۔ یہ اسباب ذیل میں درج ہیں ،
* آپریشن یا انفکشن کے بعد نَلوں کا ضائع ہوجانا۔
* بچّہ دانی میں رسولیاں(یہ رسولیاں بچّہ دانی کی تہوں سے غیرحامل ٹیومر کی شکل میں پیدا ہوتی ہیں)۔
* پرولیکٹِن (Prolactin)نامی ہارمون کی زائد مقدار ہونا۔
* بیضے بننے کے عمل میں بے قاعدگیاں۔
* بچّہ دانی کے عضلات کا جسم کے کسی اور حِصّے میں بننا (Endometriosis)اور نتیجے کے طور پر درد اور بانجھ پن پیدا ہونا۔
* نِچلے پیٹ میں سُوجن کی بیماری (PID)۔
* چھاتیوں سے دُودھ کا رِسنا (Galactorrhea)۔
* ماہانہ اےّام کا نہ آنا (Amenorrhea)۔
* بچّہ دانی کے مُنہ میں ،منی کے جرثوموں کو روکنے والی رطوبت کا پیدا ہونا۔
* جنسی طور پر منتقل ہونے والے امراض مثلأٔ کلیمائیڈیا (Chlamydia)۔
* عورت کے اندر اپنے مَرد کی منی کے جرثوموں کی مخالف اینٹی باڈیز کا پیدا ہوجانا۔
حالیہ تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ نفسیاتی مسائل، مثلأٔ جذباتی تعاون میں کمی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی تشویش سے ہارمونی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں جن کے نتیجے میں عورت کی بارآوری کی صلاحیت متاثر ہو سکتی ہے۔
مَردانہ بانجھ پن اکثر اوقات منی کے جرثوموں کی تعدادمیںکمی ، یا جسمانی بناوٹ کی خرابی مثلأٔ منی لے جانے والی نالیوں کا غیر مع***مولی پھیلاؤ کی وجہ سے ہوتا ہے۔
اِس کے علاوہ دیگر اسباب میں منی کے جرثوموں کی حرکت (motility)،یا اِن جرثوموں کی بناوٹ کی خرابیاں شامل ہیں۔
بانجھ پن کو جانچنے لئے کون سے ٹیسٹ استعمال ہوتے ہیں؟
بانجھ پن کی تشخیص کے لئے جوڑوں کا معائنہ ،خصوصی طور پر ایک ساتھ ہی کیا جاتا ہے۔ڈاکٹرکی جانب سے ، جوڑے کی میڈیکل ہسٹری کو تفصیل سے نو ٹ کیا جاتا ہے اور اِس کے بعد معائنہ کیا جاتا ہے۔یہ بھی پوچھا جائے گا کہ کیا وہ طبّی نُسخے کے مطابق یا غیر قانونی ادویات،الکحل یا تمباکو وغیرہ کا ستعمال کرتے ہیں ۔نیز یہ کہ کیا خاندان میں بانجھ پن یا جینیاتی خرابیاں پائے جانے کی ہسٹری موجود ہے۔ خواتین سے اُن کی ماہواری شروع ہونے کے وقت پر عمر، اِس سلسلے میں پیش آنے والی کسی قِسم کی مشکلات اور ماہواری کی ہسٹری کے بارے میں سوالات کئے جا سکتے ہیں۔ یہ سوال بھی پوچھا جاسکتا ہے کہ کیا اُنہوں نے محسوس کیا ہے کہ اُن کی چھاتیوں سے دُودھ رِستا ہے۔
خواتین
خواتین کے جنسی اعضاء کا معائنہ کیا جائے گا،اور بچّہ دانی کے مُنہ کی رطوبتوں کا بھی معائنہ کیا جائے گا۔
پرولیکٹن (prolactin) کی سطح اور تھائیرائڈ کے عمل کو جانچنے کے لئے خون کے ٹیسٹ کئے جاتے ہیں۔اور بعض اوقات چند ہارمونز ،مثلأٔ پروجسٹرون (progesterone) اور ایسٹراڈائی اول(estradiol )وغیرہ کی سطح کو جانچنے کے لئے خون کے ٹیسٹ کئے جاتے ہیں۔
بعض صورتوں میں ،جنسی ملاپ کے بعد ایک ٹیسٹ کیا جاتا ہے جو بچّہ دانی کے مُنہ کی رطوبتوں کے ٹیسٹ کی طرح ہوتا ہے۔اِس ٹیسٹ کا مقصد یہ جانچنا ہوتا ہے کی کیا منی کے جرثومے ،بچّۃ دانی کے مُنہ کی رطوبتوں کے پار گزرسکتے ہیں یا نہیں۔
بعض اوقات ،بچّہ دانی کے اندر ممکنہ رسولیوں کا پتہ چلانے کے لئے ،نچلے پیٹ کا الٹراساؤنڈ کیا جاتا ہے۔
لیپارواسکوپی (laparoscopy)بھی کی جاسکتی ہے ۔ اِس طریقے میں پیٹ کے اندر ایک سوراخ کے ذریعے روشنی والا ایک کیمرہ داخل کیا جاتا ہے تاکہ نچلے پیٹ کے اعضاء کا معائنہ کیا جاسکے۔
بعض اوقات ، ہسٹیرواِسکوپی (hysteroscopy)بھی کی جاتی ہے ،اِس طریقے میں بچّہ دانی کے اندر ایک پتلی ٹیوب داخل کی جاتی ہے تا کہ اِس کا براہِ راست معائنہ کیا جاسکے۔
مَرد
مَردوں کی منی کا تجزیہ کرنا ہوگا ۔مَردوں کو جنسی ملاپ سے تین روز تک گریز کرنے کے بعد منی کا نمونہ فراہم کرنا ہوتا ہے۔
کروموسومز کی بناوٹ میں بے قاعدگی یا جینز کے نقائص کو جانچنے کے لئے خون کا جینیاتی ٹیسٹ کیا جاتا ہے،کیوں کہ یہ خرابیاں ہونے والے بچّے میں منتقل ہو سکتی ہیں۔
مَردانہ ہارمون ٹیسٹوس ٹیرون (testosterone)کی سطح کو جانچنے کے لئے بھی خون کے ٹیسٹ کئے جاتے ہیں۔
کون سے علاج دستیاب ہیں؟
بانجھ پن کے حوالے سے مختلف علاج دستیاب ہیں مثلأٔ قدرتی طریقہ یعنی جنسی ملاپ انڈے خارج ہونے دِنوں میں کیا جائے، بانجھ پن دُور کرنے کی ادویات، مَردانہ بانجھ پن کا علاج، اور تولیدی تکنیک میں معاونت مثلأٔ IVF،ICSI،GIFTوغیرہ۔ اِن طریقوں کے بارے میں آپ اپنے معالج سے تبادلہ خیال کر سکتے ہیں ۔
کیا متوازی علاج سے فائدہ ہوتا ہے؟
ایسی جڑی بوٹیاں پائی جاتی ہیں جو مَردوں اور
عورتوں کے جنسی عمل کو بہتر بناسکتی ہیں۔اِن میں سے زیادہ ترجڑی بوٹیاں عام طور پر گولیوں کی شکل میں دستیاب ہوتی ہیں جو صحت بخش غذائیں فروخت کرنے والے بڑے اِسٹورز سے حاصل کی جاسکتی ہیں ،لیکن اِن کے استعمال سے پہلے جڑی بوٹیوں کے کسی مستند ماہر اور اپنے معالج سے مشورہ ضرور کر لینا چاہئے۔
تشویش بھی بانجھ پن کا سبب بن سکتی ہے ،لہٰذا اپنے روز مرّہ کے معمولات میں ذہنی دباؤ کی دیکھ بھال کے طریقے اختیار کیجئے۔
حمل سے پہلے کی احتیاط کی اہمیت
اگر آپ حاملہ ہونا چاہتی ہیں تو اِس کے لئے کوئی بھی طریقہ اختیار کیا جاسکتا ہے لیکن ہر صورت میں شراب نوشی کو اعتدال میں رکھا جائے ،تمباکو نوشی اور معالج کی تجویز کردہ ادویات کے علاوہ ہر قِسم کی ادویات سے گریز کیا جائے۔صِرف ہلکی ورزش کیجئے اور گرم حمام وغیرہ سے گریز کیجئے کیوں کہ اِن کی وجہ سے منی کے جرثوموں کی تعداد میں کمی آسکتی ہے یا انڈے خارج ہونے کے عمل میں تبدیلی آسکتی ہے۔اپنی روزمَرّہ کی خوراک میں تازہ پھل اور سبزیاں کثرت سے شامل کیجئے ،کیوں کہ اِن میں فولک ایسڈ شامل ہوتا ہے جو نومولود بچّوں میں اعصابی ٹیوب کے نقائص سے بچنے میں مدد کرتا ہے۔اپنے جسم کے وزن کو مناسب حد میں قائم رکھئے، کیوں کہ زائد وزن یا 
.کم وزن ہونے کی صورت میں بارآوری پہ متاثر ہو سکتی ہے
اپنی اور اپنے گھر والوں کی صحت کے متعلق کسی بھی قسم کی معلومات اور   
راہنمائی کے لئے کمنٹ Comment
کریں یا ہم سے رابطہ کریں 
03008263288رابطہ نمبر  

Friday 11 April 2014

نسوانی حسن ہی نسوانیت کا سب سے بڑا اثاثہ ہے

نسوانی حسن ہی نسوانیت کا سب سے بڑا اثاثہ ہے
مکمل کورس مالش + کیپسول
 ایک ماہ کا مکمل کورس
 صر ف اور صرف 2000 روپے میں
ہاف کورس 15 دن 1000 روپے میں 
گھر بیٹھے بذریعہ ڈاک منگوانے کے لئے ابھی رابطہ کریں 
0300-8263288

عورتوں میں نسوانی حسن کی کشش ایک فطری تقاضہ ہے اور اس کو عمر بھر برقرار رکھنا کامیابی کی دلیل ہے۔یہ فطرت کا ایسا تقاضا ہے جو زندگی کو امنگوں ،مسرتوں اورکامیابیوں سے ہمکنار رکھتا ہے۔عورت کا اصل حسناس کے نسوانی حسن میں پوشیدہ ہے اور اس کے بغیر اس کا حسن ادھورہ رہ جاتا ہے۔بعض خواتین میں سن بلوغت میں میمری گلینڈ کی نشو و نما ہونے کے باعث سینے میں چربی اور عضلات نسبتاً کم ہوتے ہیں اسی وجہ سے ان لڑکیوں کے سینے کی نشو و نما نہیں ہو پاتی اور سینہ بالکل سپاٹ رہ جاتاہے۔نسوانی حسن بالکل نہ ہو نے کی وجہ سے بالخصوص لڑکیاں ا س قدر احساس کمتری کا شکار ہو جاتی ہیں کہ تقا ریب میں شرکت کرنا بھی چھوڑ دیتی ہیں۔اسی طرح بعض خواتین میں کثرت اولاد،بچوں کو فیڈ کروانے، کثرت محنت اور بعض دوسری اندرونی بیماریوں سے سینے کے ابھار میں توا نائی برقرار نہ رہنے کی وجہ سے وہ ڈھلک جاتے ہیں اور عورت کی اصل خوبصورتی ماند پڑ جاتی ہے۔
نسوانی حسن سے محروم اور احساس کمتری کا شکار خواتین کیلئے ایک خاص تحفہ 
بریسٹ  گرو کورسBreast Grow Course 
 
 
بریسٹ گرو کورس عورتوں اور لڑکیوں کے لئے ایک آزمودہ مکمل اور کامیاب علاج ہے جو آپ کے سرے سے ہی نہ ہونے والے فگر کی نشوونما میں رہ جانے والی کمی کو پورا کر کے جسمانی نشیب و فراز کو اجاگر کرتا ہے۔اور آپ نسوانی حسن میں اتنا اضافہ کر سکتے ہیں جتنا آپ چاہیں ۔بریسٹ گرو کورسسے ان سائیڈ بریسٹ جلد کے مردہ ٹشو ز کو دوبارہ نئی زندگی مل جاتی ہے اور وہ اتنی تیزی سے نشو و نما پاتے ہیں کہ چند ہی دنوں میں فگر بڑھنا شروع ہو جاتے ہیں ۔ڈھلکے ہوئے فگر تن جاتت ہیں اور سخت و سڈول ہونے کے علاوہ ان میں فربہ پن آ جاتا ہے ۔ بریسٹ گرو کورس قدرتی اجزاء اور ہومیو پیتھک پر مشتمل فارمولا جو نا مکمل او ر ڈھلکے بدن کا فوری علاج ہے۔جس کا استعمال سینے میں تناؤ پیدا کرتا ہے اور ٹشوز کو Repairکرتاہے۔اپنے اجزاء کی بدولت آپ کو ان کی اٹھان اور صحت مند تناؤ کا بھر پور احساس دلاتا ہے۔اسی لئے ظاہر ی سراپے اور فگر کی کشش کیلئے بریسٹ گرو کورس کا استعمالبریسٹ میں TightingFirming اور Developing پیدا کرتاہے۔ نیز بچوں کی فیڈنگ کے بعد کے مسائل اور فگر کی دلکشی اور حسن میں کمی کو بھی بھرپور اندازمیں پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ ہر نوجوان لڑکی ، کم عمر لڑکی، شادی شدہ عورت جو اپنی جوانی کی ڈھلتی ہوئی عمر کی طرف گامزن ہو یا پھر اس میں داخل ہو چکی ہو ان تمام صورتوں میں اس کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کا نسوانی حسن ہمیشہ قائم رہے اور کسی بھی صورت خراب نہ ہونے پائے وہ اس حسن کو برقرار رکھنے کے لئے ہزاروں جتن کرتی ہیں لیکن قدرتی طور پر بعض ایس عوامل کار فرما ہوتے ہیں جس کی بنیاد پر کچھ لڑکیوں میں چھاتی کے غدود دسن بلوغت میں نشو و نما نہیں پاتے اور اس نشو و نما کے نہ ہونے کے 
باعث یہ خواتین نسوانی حسن سے محروم رہ جاتی ہیں ۔ان میںنسوانی حسن نہ ہونے کے برابر رہ جاتا ہے۔نسوانیخوبصورتی کی بحال او ر اسے دیر تک قائم رکھنے کے ضمن میں بریسٹ گرو کورس کے اجزاء میں ایسی قیمتی ادویات کو شامل کیا گیا ہے جو نہ صرف سن بلوغت کےوقت سینے کے غدودو ں کو تحریک دے کر انہیں نشو و نما فراہم کرتے ہیں بلکہ عمر کے ساتھ ساتھ ان کے بڑھنے اور خوبصورتی کو حد تک قائم رکھتے ہیں ۔ مزیدبرآںشادی کے بعد بچے کی پیدائش اور اس کے بعد پھر بچے کو دودھ پلانے کے مرحلے کے وقت عام طور پر چھاتیوں کی نشو و نما میں کمی آجاتی ہے اس کی کمی کو بھی بریسٹ گرو کورس بھر پور انداز میں پورا کرنے کی صلاحت رکھتا ہے۔بریسٹ گرو کورس نقصان دہ اجزاء سے پاک ہر عمر کی شادی شدہ و غیر شادی شدہ خواتین کیلئے یکساں مفید۔

مکمل کورس مالش + کیپسول
 ایک ماہ کا مکمل کورس
 صر ف اور صرف 2000 روپے میں
ہاف کورس 15 دن 1000 روپے میں 
گھر بیٹھے بذریعہ ڈاک منگوانے کے لئے ابھی رابطہ کریں 
0300-8263288

ؑ


پانی سے علاج واٹر ہائیڈروتھیراپی

علاج کی غرض سے پانی کااستعمال ’’واٹر ہائیڈروتھیراپی‘‘


اس زمین پر پانی ایک معجزہ ہے جو ہائیڈروجن کے دو ایٹمس اور آکسیجن کے ایک ایٹم کےباہم ملنے سے برپا ہواہے۔ رب کائنات نےجب اس زمین کی تخلیق فرمائی تو یہاں ایک متعینہ مقدار میں پانی اتارا اور ہر زندہ شے پانی سے پیدا کی۔ اس سرزمین پر خشکی کے مقابلےپانی کی مقدار ستر فیصد ہے اور انسانی جسم میں بھی اس کا یہی تناسب برقراررکھا گیا ہے۔

سائنس دانوں کاخیال ہے کہ پانی ایک ایسی دواکے مانند ہے جو نہ صرف انسانی بیماریوں کو روکتاہے بلکہ اہم بیماریوں کا علاج بھی کرتا ہے۔ لورین آئینسلے کے مطابق اس سرزمین پر اگر کوئی جادوئی شے ہے تو وہ پانی ہے۔ انسانی جسم میں دل جیسا اہم عضو اس وقت سے دھڑکنا شروع ہوجاتاہے جب بچہ اپنی ماں کے پیٹ میں محض بیس دن کا ہوتاہے اور پھر اس کی آخری سانس تک دھڑکتا ہی رہتا ہے۔ دل کادھڑکنے کے لیے بار بار سکڑنا اور پھیلنا اس پانی کی وجہ سے ممکن ہے جو اس کے خلیوں میں موجود ہوتاہے۔ آنتوں میں نظام ہضم کے لیے پانی ہی ذمے دار ہے۔ غذا میں موجود تغدیات پانی میں حل ہوکر ہی خون میں منتقل ہوپاتے ہیں جہاں سے وہ جسم کے ایک ایک خلیے میں پہنچ کر توانائی فراہم کرتے ہیں۔
انسانی جسم میں پانی کی کمی سے طرح طرح کے مسائل پیداہوتے ہیں۔ بالخصوص چھوٹےبچوں، بوڑھوں یا لمبی بیماری میں مبتلا مریضوں میں پانی کی کمی مہلک ثابت ہوسکتی ہے۔ ایسی ہلاکت خیزی کے تجربات عام طورپر سامنے آتےرہتے ہیں۔ بزرگوں، بچوں یا مریضوں کو اگر غیرمعمولی طورپر الٹیاں یا دست آجائیں تو انھیںمسلسل پانی پلانے کامشورہ دیاجاتاہے کیونکہ اگر یہ صورت حال دیر تک جاری رہ جائے تو اس کے مہلک نتائج برآمد ہوتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق بہت سی بیماریاں جیسے قبض، سردرد، خواتین میں حیض کی بے قاعدگی، وزن میںاضافہ، بلڈپریشر، چکرآنا، جوڑوں کاورم اور درد، ذہنی خلفشار، کولسٹرول میںاضافہ، آنکھوں کا جریان خون، اعضا کی کارکردگی کا معطل ہوجانا، انیمیا، سائنو سائیٹس، قلبی عارضے یہاں تک کہ قولون، الیوفیکس، جگر، پھیپھڑوں اور رحم کے کینسر کے لیے بھی پانی کی کمی ذمّے دار ہوتی ہے لیکن اگر اس کمی کی طرف توجہ دی جائے تو بڑی حد تک ان بیماریوں سے محفوظ رہاجاسکتا ہے۔ پانی دماغی خلیوں کو قوت دیتا اور یادداشت کو بڑھاتا ہے: دماغ کے گرے میٹر (Greymatterمیں ۸۵فیصد تک پانی ہوتا ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اگر اس میںصرف دو فیصد کی کمی واقع ہوجائے تو یاد داشت متاثر ہونے لگتی ہے اور انسانوں کی جوڑنے اور گھٹانے کی اہلیت کم ہوجاتی ہے۔ اگر جسم میں پانی کی کمی نہ ہونے دی جائے تو دماغی صلاحیتوں کو نارمل رکھاجاسکتا ہے۔
پانی قلب کی نارمل دھڑکن کیلئے ضروری
تجربات سے پتا چلتاہے کہ جسم میں پانی کی کمی سے دل کی دھڑکن بے قاعدہ ہوجاتی ہے لیکن اگر اس کمی کو بحال کردیاجائے تو دھڑکن نارمل ہوجاتی ہے۔
گردے کی پتھری کیلئےپانی بے مثل دوا
حضرت عیسیٰؑسے بھی ۴۰۰ سال قبل ہپّو کریٹس (Hippocratesنے پیشاب کی نالی میں پتھری کی تکلیف کو رفع کرنے کے لیے زیادہ مقدار میں پانی پینے کی سفارش کی تھی۔ موجودہ سائنس کے مطابق بھی گردے کی پتھری سے حفاظت کا بہترین طریقہ کثیر مقدار میں پانی کا استعمال ہے۔ گردے کی پتھری سے بچنے کے لیے عام طور سے جو کا پانی تجویز کیاجاتا ہے۔
موٹاپے کا علاج پانی
زیادہ پانی پینے والے کھانا کم کھاتے ہیں اور اس طرح قدرتی طورپر ان کاوزن قابو میں رہتا ہے۔ ماہرین کے مطابق وہ لوگ جن کا وزن بڑھا ہوا ہو وہ روزانہ پانچ سے ۶ گلاس نیم گرم پانی پئیں اور پھر پانی کے کرشمے دیکھیں کہ وہ کس طرح ان کے بڑھے ہوئے وزن کو کم کردیتا ہے۔
ماہرین کے مطابق اگر صبح نہار منہ صرف دو گلاس تازہ پانی ہی پی لیاجائے تو وہ عام صحت کو قائم رکھنے کے لیے کافی ہے۔ کیونکہ صبح اٹھنے کے بعد پیٹ خالی ہوتا ہے اس لیے پانی کو جسم کے زہریلے مادے خارج کرنا آسان ہوتاہے اس کے علاوہ پانی خون کو پتلا کرنے اور بدن کے اہم اعضا کو تقویت پہنچاکر انھیں چاق و چوبند رکھنے میںبھی مددگار ثابت ہوتا ہے۔ اوپر بیان کی گئی بیماریوں کو روکنےمیں بھی پانی بہت اہم رول ادا کرتا ہے۔اس سلسلے میں مسٹر آر جی گنگن وانی نے عوام کی بہبود کے خیال سے ’دکن کرانیکلس‘ نامی میگزین میں ’پانی سےمعجزاتی علاج‘ عنوان کے تحت ایک مضمون شائع کیاتھا جس میں انھوںنے ’جاپان سکنیس ایسوسی ایشن‘ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھاتھا کہ پانی کے ذریعے بہت سی بیماریوں کا علاج ممکن ہے۔ ان میں سردرد، ہائی بلڈپریشر، دمہ، نرخرے کی جھلی کا ورم، انیمیا، عام فالج، موٹاپا، جوڑوں کا ورم اور درد، ناک کے جوف کی سوجن، کھانسی، پھیپھڑوں کی دِق، جگر کی خرابی، پیشاب اور تناسلی امراض ، تیزابیت، پیچش، کانچ نکلنا، قبض، ذیابیطس، امراض چشم، بے قاعدہ حیض، لیکوریا، حلق کا ورم اور رحم و پستان کے کینسر جیسی بیماریاں شامل تھیں۔
اب سے تقریباً ۲۵۰۰ سال پہلے کنفیوسیٹس نے کہاتھاکہ کسی بھی جاندار کی صحت اس کے معدے کی صحت پر موقوف ہوتی ہے۔ اس بیان کی روشنی میں رمضان کے روزے اللہ کا انتہائی کرم اور اس کی رحمت سے تعبیر کیے جاسکتے ہیں۔ دیکھاجائے تو صاف پانی جسم کے اندر پہنچ کر پوری طرح اس کی صفائی کردیتا ہے تاکہ نظام ہضم کی کارکردگی بڑھ جائے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جب پانی کے ذریعے قولون اور آنتوں کی اندرونی جھلی دُھل کر صاف ہوجاتی ہے تو غذا میں موجود تغذیات کا خون میں انجذابی عمل تیز ہوجاتاہے اور نتیجے میں جسم کے اندرصحت مند خون کا اضافہ ہوجاتاہے۔ ظاہر ہے یہ صحت مند تازہ خون جسم کے جس حصے میں پہنچے گا وہاں کی بیماریوں اور عارضوں کو ختم کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔
پانی کے ذریعے علاج کا طریقہ یہ ہے کہ صبح اٹھنے کے فوراً بعد۱ء۲۶ کلو یا ۱۲۶۰ملی  لیٹر تازہ، صاف پانی پی لیاجائے۔ یہ کام منہ ہاتھ دھونے اور دانت صاف کرنے سے بھی پہلے کیاجانا چاہیے۔ اگلے پینتالیس منٹ تک کچھ بھی کھایا پیا نہ جائے۔ اس بات کا بھی خیال رہے کہ رات کو سونے سے پہلے جسم کو متحرک کرنے والی کوئی شے یا مشروب کااستعمال نہ کیاجائے۔ ایک دفعہ میں اس قدر پانی پی لینا یقیناً ایک مشکل کام ہے لیکن چند روز کی کوشش اسے آسان بنادے گی۔ ایک بار میںجس قدر بھی پانی آسانی سے پیاجاسکے پی لیں اور اس کے بعد یا تو لیٹ جائیں یا پھر ایک جگہ کھڑے ہوکر چلنے کی کوشش کریں۔ تھوڑا وقفہ دے کر باقی پانی بھی پی لیں۔ چند روز ضرور دشواری محسوس ہوگی لیکن بعدمیں یہ کام آسان ہوجائے گا۔ جوڑوں کی سوجن یا درد میں مبتلا مریضوں کو پہلے ہفتے میں پانی پینے کا یہ عمل دن میں تین باردہرانا چاہیے لیکن بعد میں صرف ایک ہی بار پانی پینا کافی ہوگا۔ پانی سے علاج کے دوران کھانے کے دو گھنٹے بعد پانی پینا چاہیے۔ ساتھ ہی مشروبات وغیرہ سے بھی مکمل طورپر پرہیز کرنا چاہیے۔ تجربات شاہد ہیں کہ پانی کے ذریعے حسب ذیل بیماریاں ان کے سامنے دی گئی مدت میں دور ہوسکتی ہیں۔
۱۔ ہائی بلڈپریشر-ایک مہینہ
۲۔قبض-ایک یا دودن
۳۔ ذیابیطس-ایک سے دو ہفتے
۴۔کینسر -ایک مہینہ
۵۔ پھیپھڑوں کی دق۳ سے ۹ مہینے
اس طریق علاج  کو اپنانے والے ایک نوجوان کا کہناتھا کہ پہلے روز پانی پینے کے بعد اُسے تین بار پیشاب کے لیے جانا پڑا جس کے بعد اُسے ناشتہ انتہائی ذائقہ دار اور راحت بخش محسوس ہوا۔ دوسرے دن اس کے اجابت کے مسائل حل ہوگئے اور تین مہینوںکے اندر اس کا وزن بڑھ گیا۔ اس نے بتایاکہ اس علاج کے بعد سے اب تک وہ کبھی بیمار نہیں ہوا یہاں تک کہ معمولی نزلہ اور کھانسی تک اسے نہیں ہوئی۔
علاج کی غرض سے پانی کااستعمال ’’واٹر ہائیڈروتھیراپی‘‘ (Water or Hydro - Therapy)کہلاتا ہے۔ پانی پی کر بیماریوں کا علاج یا روک تھام واٹر تھیراپی کا صرف ایک پہلو ہےجب کہ دوسرا ایک پہلو اور بھی ہے جس میں پانی کو جسم کے باہر سے استعمال کیاجاتا ہے۔
عام گرم پانی کے ٹب میں لیٹنے یا پھر گندھک کے چشموں سے نکلنے والے گرم پانی میں خود کو ڈبونے سے جو لطف اور راحت حاصل ہوتی ہے وہ تو ہے ہی تاہم اس عمل کے دوران نہ صرف جسم کے بہت سے درد رفع ہوجاتے ہیں بلکہ جسمانی حرکت میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور بعض بیماریاں تک دور ہوجاتی ہیں۔ انسانی جسم جیسے ہی گرم پانی کے اندر جاتاہے، اسی لمحے پانی کے فوائد حاصل ہونے شروع ہوجاتے ہیں۔ سب سے پہلے اسے گرمی کا احساس ہوتا ہے جس کے ساتھ ہی پانی اس کے جسم کو اوپر اچھال کر ہلکا کردیتا ہے اور وہ کسی قدر زمینی کشش سے آزاد ہوجاتا ہے اور پھر ان کے اثر سے جسم کا دورانی نظام متاثر ہونے لگتا ہے۔
گرم پانی جسم کو گرم کردیتاہے۔ یہ عمل اوپری جلد سے شروع ہوتا ہے۔ فورا ہی دل اپنی کارکردگی تیز کردیتاہے اور وہ زیادہ قوت سے خون پمپ کرتا ہے تاکہ جسم کی اوپری شریانوں میں پہنچ کر بڑھی ہوئی حرارت کو نارمل کرنے کا عمل شروع کرسکے۔ اوپری شریانوں میں تیزی سے خون کا دوران وقتی طورپر خون کا دبائو بڑھا دیتا ہے۔ گرم خون کے زیراثر تیزی سے پسینہ آتا ہے جو عام حالت میں جلد سے نکل کر بخارات کی شکل میں فضا میں تحلیل ہونے لگتا ہے جس کے ساتھ ہی جسمانی درجہ حرارت نارمل ہونے لگتا ہے۔ لیکن گرم پانی میں ڈوبے ہوئے جسم سے پسینہ نہیں نکل پاتا اور اوپری شریانوں کا خون جب جسم کے دوسرے حصوں میں گہرائی تک پہنچتا ہے تب وہ پورے جسم کو مزید گرم کردیتا ہے۔ اگر گرم پانی کا درجہ حرارت ۱۰۴ ڈگری فارن ہائیٹ تھا تو ۲۰ منٹ کے اندر جسم کا مجموعی درجۂ حرارت ۱۰۲ ڈگری فارن ہائیٹ ہوجاتا ہے۔
گرم پانی میں لیٹنے والے تصدیق کریں گے کہ کچھ دیر بعد ہی بے حد راحت اور سکون کا احساس ہونے لگتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گرم خون جسم کی شریانوں میںلگاتار گردش کرتا رہتا ہے اور اس کی بڑھی حرارت شریانوں کو پھیلاکر چوڑا کردیتی ہے جس کے سبب دوران خون زیادہ آسانی اور بغیر کسی رکاوٹ کے ہونے لگتا ہے اس کی وجہ سے بڑھا ہوا بلڈ پریشر ایک بار پھر نیچے آجاتا ہے۔
وجہ چاہے کچھ بھی ہو لیکن اگر جسم کا کوئی عضلہ کبھی کسی تنائو کا شکار ہوجائے تو وہ اپنےاندر موجود نسوں اور رگوں پر بھی اثرانداز ہوتاہے۔ رگوں کے اندر دوران خون میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے اور وہ عضلے کو اتنی مقدار میں آکسیجن مہیا کرنے میں ناکام ہوتاہے جتنی کہ مہیا کرنا چاہیے جس سے عضلے میں گھٹن اور درد کی شکایت میں اضافہ ہوجاتاہے اور اس طرح عضلے میں تکلیف اور ناخوشگواری کااحساس بڑھ جاتا ہے لیکن جیسے ہی وہ عضلہ گرم پانی کے اندر جاتاہے الٹا عمل شروع ہوجاتاہے اور اسے راحت اور طمانیت محسوس ہونے لگتی ہے۔ گرم پانی رگوں کو کھولتا ہے اور ان میں رکاوٹ دور ہونے سے دوران خون تیز ہوجاتاہےجس کے زیرِ اثر عضلے کو آکسیجن کی خاطر خواہ فراہمی بحال ہوجاتی ہے۔ نسوں پر دبائو جیسے جیسے کم ہوتاہے ویسے ویسے درد اور تکلیف میں افاقہ ہونے لگتاہے اور عضلےمیں راحت اور خوشگواری کا احساس بڑھنے لگتا ہے۔ اگر طبی زبان میں بات کریں تو جب کوئی عضلہ تنائو سے آزاد ہوتاہے تو اس کے مختلف ریشوں کے درمیان فاصلہ پیدا ہوجاتا ہے اور اس طرح خون کی رگوں کو خون کی ضروری مقدار وہاں پہنچانے میں بالکل وقت نہیں ہوتی۔ جسمانی تحول کے نتیجے میں عضلے کے اندر جو بھی زہریلے فاضل مادّے جیسے لیکٹک ایسڈ وغیرہ پیدا ہوجاتے ہیں خون انھیں باہر نکال کر ان کی جگہ تازہ آکسیجن اورغذا سے حاصل کیے ہوئے تغذیات وہاں پہنچادیتا ہے جس کے ساتھ ہی عضلہ راحت اور خوشگواری کا احساس کرنے لگتا ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ اگر گرم پانی میں جسم کو ڈبونے کے ساتھ ساتھ عضلات کی تھوڑی ورزش اور مساج بھی کرلیاجائے تو نتائج اور بھی بہتر اور دیرپا ہوتے ہیں۔ واٹر تھیراپی کا یہ طریقہ ان لوگوں کے لیے بہت کارآمد ہے جو عموماً ایک جگہ بیٹھ کر لکھنے کا یا پھر کمپیوٹر وغیرہ پر کام کرتے ہیں اور جس کے باعث ان کی گردن، کمر یا ہاتھوں پیروں کے حصوں میں عضلات اکڑجاتے ہیں۔

سیکس کرنے کے طریقے

The seated scissors
sex position: The seated scissors

اس پوزیشن میں عورت ایکٹیو حالت میں ہوتی ہے اور وہ اپنی ضرورت کے مطابق دخول کرواتی ہے اس حالت میں مرد سیدھا لیت جاتا ہے اور اس کے گھٹنے مڑے ہوئے ہوت ہیں عورت مرد کی ایک ٹانگ اپنی پشت کے درمیان سے باہر نکالتی ہے 
اور دوسری ٹانگ مرد کی ٹانگ کے درمیان اس طرح عورت سیکس کرنے کے لئے بہترین پوزیشن حاصل کرتی ہےوہ دباو ، رگڑ اور رفتار کو خود کنٹرول کر رہی ہوتی ہے اس لئے بہت زیادہ لطف حاصل کرتی ہے  . 

بہترین سیکس تیکنیک The counter top

The counter top

اس طریقہ میں عورت میز یا کاونٹر پر پشت کے بل لیٹتی ہے جب کہ مرد کھڑا ہو کر دخول کرتا ہے یہ بہت انجوائے کرنے والی  حالت ہوتی ہے اس میں مرد آسانی سے حرکت کر سکتا ہے اور عورت کو مزید لطف دینے کے لئے کاونٹر یا میز پر آگے پیچھے آہستہ آہستہ دھکیل سکتاہے اور  ایسا کرنے میں مرد کو عضو بھی باہر نکالنا نہیں پڑتا وہ گہرائی تک دخول کرتاہے اور یہ تکنیک بہت زیادہ موثر ہے   

Monday 7 April 2014

عورتوں کو جلد منزل کرنے کے لئے بہترین سیکس تکنیک

Modified coital alignment technique
یہ ایک آرام دہ اور لطف سے بھرپور پوزیشن ہے جب مرد گہرائی تک عورت کی فرج میں دخول کر لیتا ہےتو وہ عورت کی ٹانگیں اپنی ٹانگوں کے درمیان میں رکھتے ہوئے اپنا جسم کا وزن آہستگی سے آگے کی طرف منتقل کرتا ہے اس طرح بہت زیادہ رگڑ پیدا ہوتی ہے اور مرد جب آگے پیچھے حرکت کرتا ہے توبھرپور رگڑ پیدا ہوتی ہے یہ ان عورتوں کے لئے بہترین طریقہ ہے جو جلد منزل نہیں ہوتی ہیں اس طریقہ سے ایسی عورتیں بھرپور انزال اور لطف لیتی ہیں     

عورتوں کو جلد منزل کرنے کے لئے بہترین سیکس تکنیک


Butterfly Position  تتلی کی پوزیشن
اس پوزیشن میں عورت اپنی کمر کی پشت بستر سے اور 

کولہے کوبستر کے بالکل کنارے پر لے آتی ہے اور مرد 

کھڑا ہو کر دخول کرتاہے اس کے بعد عورت اپنی ٹانگیں مرد 

کے کندھوں پر رکھتے ہوئے اپنی کولہے کو تھوڑا سا اوپر 

اٹھاتی ہے اس طریقہ مباشرت میں مردانہ عضو اندر تک دخول 

کرتاہے اور عورت کے اندام نہانی کا منہ بالکل سامنے ہونے 

کی وجہ سے عورت جلدی انزال ہو جاتی ہے یہ طریقہ 

ایسے جوڑوں کے لئے بہترین ہے جن مردوں کا عضو تناسل 

چھوٹا ہو اور عورت مکمل منزل تک نہ پہنچ سکے    

لیکوریا کیا ہے؟ لیکوریا کا علاج


لیکوریا

تعارف :

لیکوریا عام طور پر سفید مادہ کے اخراج کے نام سے جانا جاتا ہے جو زنانہ اعضائے تولید کی بیماری ہے جس میں سفید مادہ زنانہ ستر سے خارج ہوتا ہے۔ اس کا سنکرت نام شویتا پرادرا‘ دو الفاظ مجموعہ ہے شویتا کا مطلب سفید اور پرادرا کا مطلب اخراج۔
لیکوریا کی عام تعریف سفید مادہ ہوتا ہے جو زنانہ اعضائے تولید جنسی عضو سے خارج ہوتا ہے۔ یہ اخراج بالکل ہموار طور پر بہتا ہے یا پھر چپکنے والا اور گاڑھا ہوتا ہے۔ اس کی ہئیت خواتین کی عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ بدلتی ہے یا وہ بہت سفر کریں تو تبدیلی ہوتی ہے۔ زنانہ جنسی مخصوص عضو سے مادہ کا اخراج ایک خاص حد تک صحت مندی کی علامت اور عام بات ہے‘ یہ اخراج اصل میں اعضائے تولید کے مردہ خیلوں کا مائع صورت میں ہوتا ہے اور یہ وہ زہریلے اجزاءہوتے ہیں جو کہ مسلسل عضو سے خارج ہوتے رہتے ہیں۔ عام صحت مند خواتین میں یہ اخراج سفیدی مائل ہوتا ہے لیکن اگر اخراج رنگت میں گاڑھا ‘لیسدار‘سفید رنگ اور جلن دار ہو جائے تو طبی معائنہ کی ضرورت ہے۔ علامات کے مطابق صورتحال جب سنگین اور اخراج میں کوئی غیرمعمولی عمل ہوتو درج ذیل حالات میں لیکوریا کے علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔
۱۔ اگر اخراج بہت زیادہ اور مسلسل ہو اور اس کو روکنا مشکل ہو‘ یہاں تک پیڈ رکھنا پڑے۔
۲۔ اگر اخراج بالکل سفید نہ ہو بلکہ یہ سرمئی مائل سفید ہو‘ پیلا ہو یا سبز ہو‘ بھورا ہو یا زنگ جیسا ہو اور اخراج کے دوران خارش کا احساس ہو۔
اسباب :
درج ذیل کچھ مشہور اسباب ہیں۔
1- کسی قسم کی پھپھوندی سے ہونے والا انفیکشن
کوئی فنگس جیسے کہ خمیر اعضائے تولید یا جنسی اعضاءمیں انفیکشن کا باعث ہوتے ہیں جس کی وجہ سے لیکوریا ہو جاتا ہے جب یہ بیماری فنگس کی وجہ سے ہو تو اخراج گاڑھا ہو گا۔ سفید ہو گا اور اس کے ساتھ جنسی عضو میں خارش کا احساس ہو گا۔ اس قسم کے اخراج کو زنانہ عضو کی پھپھوندی کہا جاتا ہے۔
2- طور پر منتقل شدہ بیماری:
کچھ جنسی طور پر منتقل شدہ بیماریاں خواتین میں لیکوریا کا سبب بنتی ہیں۔ اس میں جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماری Trichomoniasis ہے جس میں اخراج سبزی مائل یا پیلا ہوتا ہے۔
3 گندے بیت الخلائ سے:
بیت الخلاءکی اشیاءکا مشترکہ استعمال‘ خاص طور پر عوامی بیت الخلاءزنانہ جنسی عضاءکے انفیکشن کا باعث بنتے ہیں جس کے نتیجے میں لیکوریا کا مرض ہو جاتا ہے۔ یہ ان خواتین میں دیکھنے میں آیا ہے جو جنسی عضو کی ادویات کا زیادہ استعمال کرتی ہیں۔
4- بچے دانی کے آخری تنگ حصے کے مسائل :
اس میں بچے دانی کے سرے پر چھالے یا ورم بھی لیکوریا کا باعث ہو سکتا ہے۔ اس حالت میں لیکوریا کا اخراج بہت زیادہ ہوتا ہے بلکہ جنسی ملاپ کے دوران ہونے والے اخراج سے بھی زیادہ ہوتا ہے اور یہ بھورے رنگ کا ہوتا ہے اور جمے ہوئے خون سے مشابہت رکھتا ہے۔
5-کے نچلے حصہ کی سوزش:
پیلوس یا پیٹ کے نچلے (جس میں تولیدی و جنسی اعضاءہوتے ہیں) پیلوس میں انفیکشن کے باعث سوزش ہو سکتی ہے۔ اس حصے میں سوزش بھی لیکوریا کا سبب بنتی ہے
6- مختلف بیماریوں کی وجہ سے:
وہ خواتین جو مختلف بیماریوں کا شکار ہوتی ہیں جیسے کہ تپ دق‘ یا انیمیا (خون کی کمی) ان کے جنسی عضو سے اخراج کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے یہ ان خواتین میں دیکھا گیا ہے جو کہ بیماریوں کے خلاف مدافعت نہیں رکھتیں یا ناقص خوراک استعمال کرتی ہیں۔
7- دباﺅ اور تناﺅ:
لیکوریا کا کچھ سبب نفسیاتی بھی ہوتا ہے جو خواتین بہت دباﺅ میں رہتی ہیں‘ یا پریشانیوں کا شکار رہتی ہیں ان میں لیکوریا کا مرض ہوسکتا ہے۔اور بعض خواتین اتنی خوف زدہ ہوتی ہیں اور کلینک میں آکر کہتی ہیں ڈاکٹر صاحب ہماری ہڈیاں گھل رہی ہیں۔
لیکوریا کی اقسام:
لیکوریا کی مختلف اقسام کی جماعت بندی اخراج کے رنگ اور اسباب کی بناءپر کی گئی ہے۔ درج ذیل جدول ان اقسام کا خلاصہ واضح کرتا ہے۔
لیکوریا کی قسم
سبب
اخراج کا رنگ
انفیکشن کا لیکوریا
پھپھوندی کے باعث ہونیوالا انفیکشن
گاڑھا اور سفید خارش کا احساس لئے ہوئے
جنسی طور پر منتقل شدہ لیکوریا
جنسی طور پر منتقل شدہ لیکوریا جیسے کہ Trichomoniasis
سبز اور پیلے رنگ کا اخراج
سرویکل لیکوریا
بچہ دانی کے سرے پر چھالے یا ورم آجانا
خون سے مشابہ زنگ کے جیسا بھورا اخراج
پیٹ کے نچلے حصہ ‘ جہاں اعضائے تولید ہوتے ہیں‘ کا لیکوریا
پیٹ کے اس حصے میں خرابی جو اعضائے تولید پر مشتمل ہوتا ہے‘ خاص طور پر اس حصے کی سوزش
سفید رنگ کا اخراج ‘ کمر کے نچلے حصہ میں درد کے ساتھ
ذہنی دباﺅ یا تناﺅ کے سبب ہونے والا لیکوریا
ذہنی دباﺅ اور تناﺅ
پتلا سیفد اخراج ‘ بہت زیادہ مقدار میں
لیکوریا کی علامت :
لیکوریا کی سب سے واضح علامت عام طور پر زنانہ جنسی عضو سے ہونے والے اخراج میں غیرمعمولی پن ہے۔ یہ اخراج درج ذیل علامات جیسا ہوتا ہے:
۱۔ عام حالت سے گہرے رنگ کا اکثر پیلا یا سبز یا بھورا
۲۔ سفید لیکن مقدار میں زیادہ
۳۔ اخراج کے ساتھ خارش کا احساس ہو اور پیٹ کے نچلے حصہ میں درد ہوتا ہے۔
لیکوریا کی وجہ سے پیدا ہونے والی پیچیدگیاں:
لیکوریا ایک معمولی بیماری ہے اگر اس کو ابتداءمیں ہی پکڑ لیا جائے تو اور کسی کو اخراج میں کوئی غیرمعمولی پن محسوس ہو تو وہ فوراً ڈاکٹر سے رجوع کرے۔ بروقت علاج سے یہ مسئلہ دو دن یا ایک ہفتہ میںحل ہو سکتا ہے۔
ایک بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ لیکوریا میں کوئی بھی دوا ازخود استعمال نہیں کرنی چاہئے۔
بازار میں بہت سی کریمیں‘ مرہم اور گولیاں دستیاب ہیں۔ ان کو ماہر امراض نسواں کے مشورے کے بغیر استعمال نہیں کرنا چاہئے۔ کچھ خواتین لیکوریا میں استعمال ہونے والی ادویات سے الرجی ہوتی ہے اس کی وجہ سے مزید انفیکشن ہو سکتا ہے اور معاملہ مزید بگڑ سکتا ہے اس لئے بہتر ہے اس کی احتیاط کی جائے۔
لیکوریا کی منتقلی:
لیکوریا جو کہ خمیر کی طرح پھپھوندی سے منتقل ہوتا ہے اور عورت سے دوسری عورت میں بہت آسانی سے منتقل ہو جاتا ہے۔ جب ایک متاثرہ خاتون کے کپڑے ایک صحت مند خاتون کے کپڑوں سے ملیں گے اس کی وجہ سے یہ بیماری اسے بھی متاثر کر سکتی ہے۔ لہٰذا اپنے زیر جامہ اچھی طرح اعلیٰ قسم کے ڈیٹرجنٹ سے دھوئیں جو کپڑوں پر لگی فنگس یا داغ کو صاف کر سکے۔ لیکوریا غیرمحفوظ جنسی رابطے کی وجہ سے بھی ہوتا ہے۔ ایک شخص کے گندے اعضائے تولید عورت کے گندے اعضائے تولید کو انفیکشن سے متاثر کر سکتے ہیں جو کہ لیکوریا کا باعث ہوسکتے ہیں۔
لیکوریا سے بچاﺅ:
بہت سی احتیاطی تدابیر ہیں‘ جن پر عمل کرنے سے لیکوریا سے بچا جا سکتا ہے۔
چند رہنماءاصول درج ذیل ہیں:
تولیدی اعضاءکی صفائی ستھرائی بہت اہم ہے۔
اپنے جنسی تولیدی اعضاءکو غسل کے دوران دھوئیں۔
Anus اینس اور ولوا Vulva زنانہ اعضائے تناسل کی تہوں پر پانی بہت زیادہ بہائیں۔
نہانے کے بعد اپنے صاف تولئے سے تولیدی اور تناسلی اعضاءکو خشک کریں۔
نہانے کے بعد تولیدی اور تناسلی اعضاءکو گیلا مت چھوڑیں۔
بہت زیادہ پانی پیئیں تاکہ جسم سے زہریلے مادے خارج ہوں۔
اس بات میں بہت باقاعدہ رہیں کہ پیشاب کے بعد اچھی طرح اس حصے کو صاف کرلیں۔
اگر بارش یا کام کے دوران کپڑے بھیگ جائیں تو انہیں فوراً تبدیل کرلیں۔ نائیلون کے کپڑوں سے احتیاط برتیں‘ خاص طور پر گرمیوں کے موسم میں کیونکہ اس سے جنسی اعضاءمیں پسینہ جمع ہو جاتا ہے‘ زیر جاموں کیلئے سوتی کپڑا بہترین ہے۔
اگر آپ سے جنسی ملاپ کرنے جا رہے ہیںتواس بات کا اچھی طرح یقین کرلیں کہ آپ کا ساتھی کسی بھی قسم کے انفیکشن سے پاک ہو اس عمل کے بعد آپ کو اور آپ کے ساتھی کو اپنے جنسی اعضاءاچھی طرح دھونے چاہئیں‘ اس سے بہت سی بیماریوں سے بچ جائیں گے۔ جنسی عمل کے بعد اسے اپنا معمول بنا لیں۔
انگشت زنی سے مکمل پرہیز کیا جائے۔
تولیدی اعضاءکے اردگرد پاﺅڈر‘ پرفیوم اور دیگر کاسمیٹکس کا غیرضروری استعمال نہ کیا جائے۔ تناﺅ اور دباﺅ کو کم کرنے والی ورزشیں روانہ کی جائیں‘ صبح سویرے سیر کی جائے‘ اگر جسم دباﺅ سے پاک ہو گا تو اس میں بیماری کے خلاف مدافعت زیادہ ہوگی۔
لیکوریا سے بچاﺅ کیلئے خوراک:
لیکوریا سے بچاﺅ خوراک میں تبدیلی لا کر بھی کیا جا سکتا ہے۔ اس تبدیلی کا مطلب ہے‘ نقصان دہ غذا کو خوراک میں سے نکال کر کچھ ایسی غذاﺅں کو خوراک میں شامل کرنا جو فائدہ مند ہوں۔
درج ذیل خوراک لیکوریا سے متاثر خاتون کیلئے مثالی ہے:
چینی سے پرہیز کرنا چاہئے اگر اخراج بہت زیادہ مقدار میں ہو‘ اس کا اطلاق تمام میٹھی چیزوں پر ہوتا ہے جیسے کہ مٹھائی‘ پیسٹری‘ کسٹرڈ‘ آئس کریم اور پڈنگ‘ کھمبیاں یا مشروم سے پرہیز کرنا چاہئے کیونکہ یہ بھی پھپھوندی کی ایک قسم ہے۔ کچھ کھمبیاں آلودگی پیدا کرتی ہیں۔
گرم اور مصالحہ دار اشیاءجو کہ پیچیدگیاں پیدا کرتی ہیں‘ ان کو خوراک میں کم سے کم استعمال کرنا چاہئے۔