Sunday 6 April 2014

مشت زنی Masturbation (Musht zani)

مشت زنی کے اسباب اور علاج
مشت زنی کے اسباب اور ان کا علاج درج ذیل ہے:
۱۔شادی میں تاخیر
جلق بازی کا پہلا سبب شادی میں تاخیر ہے۔ ایک بچہ ۱۳ یا ۱۴ سال کی عمر میں بالغ ہوجاتا ہے۔ لیکن معاشی اور سماجی مسائل کی بنا پر وہ بلوغت کے ۱۵ یا ۱۶ سال بعد ہی شادی کے قابل ہوتا ہے۔ اس کا علاج جلد از جلد شادی ہے۔ اس موضوع پر ۔” شادی ایک مسئلہ کیوں؟” نامی تحریر سے بھی مدد لی جاسکتی ہےیہ تحریر اس لنک پر موجود ہے۔
اگر شادی کی استطاعت نہ ہو تو حدیث کے مطابق روزے رکھ کر شہوت پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
۲۔ بری صحبت
ایک بچہ جب جوان ہوتا ہے تو اس کے ہارمونز میں تبدیلی آتی ہے۔ چنانچہ وہ اس ہیجان کی نوعیت سمجھنےکے لئے اپنے دوستوں سے رجوع کرتا ہے۔ اگر اس کے دوست احباب مشت زنی عریاں فلموں اور اس قبیل کی دیگر خرافات میں ملوث ہوتے ہیں تو وہ اسے بھی ان معاملات میں ملوث کرلیتے ہیں۔ اس کا علاج دو رخی ہے۔ ایک تو ماں باپ بچے کی بلوغت کے وقت اس پر کڑی نظر رکھیں اور اس کے معمولات کو دیکھیں۔ دوسرا یہ کہ اگر کوئی شخص بری صحبت سے بچنا چاہے تو اسے چاہئے کہ فوری طور پر وہ ایسے دوستوں سے قطع تعلق کرلے۔ نعم البدل کے طور پر وہ صالح فطرت لوگوں کی کمپنی تلاش کرے۔
۳۔ جنسی تعلیم کا فقدان
ہمارے معاشرے میں جب ایک بچہ یا بچی جوان ہوتے ہیں تو ان کی جنسی تعلیم کا کوئی انتظا م موجود نہیں ہوتا۔ نہ تو تعلیمی اداروں میں اس موضوع پر کوئی تربیت فراہم ہوتی ہے اور نہ ہی ماں باپ اپنی روایتی ہچکچاہٹ کی بنا پر کسی راہنمائی کی پوزیشن میں ہوتے ہیں۔چنانچہ ایک نوجوان کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ وہ اپنے ہی ہم عمر اور ناپختہ دوستوں سے رجوع کرے یا جنسی موضوعات پر موجود ناقص کتابوں پر تکیہ کرے یا پھر انٹرنیٹ اور فلموں جیسے آزاد اور بد چلن میڈیا کو اپنا استاد بنالے۔ اسکے نتیجے کے طور پر ایک متجسس نوجوان بہت آسانی سے مشت زنی کی جانب راغب ہوجاتاہے۔
انٹرنیٹ پر جنسی تعلیم کے نام پر جومواد موجود ہے وہ بالعموم مغربی فکر کے حامل افراد نے تیار کیا ہے ۔اس کا بیشتر حصہ غیر معیاری ہے اور اس کا مقصد آزادانہ جنسی اختلاط کو فروغ دینا ہے۔نیز یہ انگلش زبان اور غیر ملکی کلچر کی وجہ سے ہماری آبادی کے ایک بڑے حصے کے لئے بے کار ہے۔اردو میں جنس کے موضوع پر معیاری مواد نہ ہونے کے برابر ہے۔
اس ضمن میں ریاست کو اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔ ریاست اپنی نگرانی میں ماہرین کی مدد سے ایسا لٹریچر تیار کرے جو ایک پاکیزہ اسلوب میں ان نوجوانوں کی درست راہنمائی کرے۔ اس کے علاوہ ایسے ادارے رجسٹرڈ کئے جائیں جہاں جنسی مسائل کا اسپیشلائزڈ انداز میں حل پیش کیا جائے۔اس کے ساتھ ساتھ اہل علم حضرات، نفسیات دان اور ڈاکٹر ز کو چاہئے کہ وہ اپنی انفرادی و اجتماعی کوششوں کے ذریعے معیاری لٹریچر تیار کریں۔ ہمارے اہل علم حضرات عام طور پر جنس کے موضوع پر نہیں لکھتے کیونکہ ایسے مصنفین کو معاشرے میں تنقید کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ لیکن ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ نوجوانوں کی تربیت ہماری اخلاقی ذمہ داری ہے اور اس ذمہ داری کو پورا کرنے کے دوران اگر ہمیں ملامت بھی برداشت کرنی پڑے تو کوئی حرج نہیں۔
سیکس ایجوکیشن کے موضوع پر درج ذیل تین ویب سائٹس ہیں ۔ گوکہ ان کے معیار اور اسلوب پر کلام کیا جاسکتا ہے لیکن یہ کسی نہ کسی حد تک نوجوانوں کی راہنمائی کے لئے مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔
۴۔کیبل ٹی وی جنسی لٹریچر کی بھرمار
مشت زنی کی ایک اور وجہ جنسی بے راہ روی کو فروغ دینے والے میڈیا تک آسان رسائی ہے۔ آج تقریباً ہر گھر میں ٹی وی، کیبل، انٹرنیٹ وغیرہ با آسانی دستیاب ہے۔ اس میڈیا پر بہت آسانی سے عریاں فلمیں، فحش تصاویر اور دیگر اخلاق باختہ مواد مل جاتا ہے۔ چنانچہ جب ایک نوجوان اپنے ارد گرد نظریں دوڑاتا ہے تو وہ خود کو چاروں طرف اس جنسی یلغار میں گھرا پاتا ہے۔ دوسری جانب اس کے اندرونی تقاضے بھی اسے گناہ کی جانب اکساتے ہیں۔ یہ سب صورت حال اسے مشت زنی کی جانب باآسانی لے جاتی ہے۔
اس کا علاج یہی ہے کہ انٹرنیٹ اور ٹی وی یا کیبلز کو کم سے کم وقت دیا جائے۔ نیز تنہائی میں ٹی وی یا کمپیوٹر استعمال کرنے سے گریز کیا جائے ۔ مزید یہ کہ ٹی وی اور کمپیوٹر کو کسی ایسی جگہ پر رکھا جائے جہاں لوگوں کا گذر ہو ۔ اس موضوع پر “فحش سائیٹس اور ہمارے نوجوان ” نامی تحریر سے بھی مدد لی جاسکتی ہے جس کا لنک نیچے ہے۔
۵۔ عشق و محبت میں گرفتاری
بلوغت کے فوراً بعد ہی ایک نوجوان اپنے ارد گرد ایک عشق گزیدہ ماحول میں آنکھیں کھولتا ہے۔ہر دوسرے ڈرامے، فلم یا ناول میں عشق و محبت کی داستانیں چل رہی ہوتی ہیں۔ چنانچہ وہ اس خیالی دنیا کو حقیقی سمجھ کر خود بھی قسمت آزمائی کرتا ہے۔ جب وہ اس میں کامیاب ہوجاتا ہے تو صنف مخالف سے اس کا اختلاط بڑھ جاتا ہے جو اسے مشت زنی کی جانب لے جاسکتا ہے۔
اس کا علاج یہ ہے کہ نوجوان ان ناولوں اور فلموں سے خود کو دور رکھتے ہوئے حقیقت پسندی پر مبنی لٹریچر پڑھے یا دیکھے۔ مثال کے طور سیرت نبوی یا صحابہ کا مطالعہ، شجاعت اور اخلاقی اچھائیوں پر مبنی ڈرامے وغیرہ۔ اس ضمن میں ” عشق اور نوجوان ” نامی تحریر سے راہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔


۶۔ تنہائی اور بے کاری
عام طور پر نوجوانوں کے پاس فارغ اوقات زیادہ ہوتے ہیں اوراس فراغت میں تنہائی بھی میسر آجائے تو ذہن پر جنسی خیالات چھاجانے کا قوی اندیشہ ہوتا ہے۔ چنانچہ نوجوانوں کو چاہئے کہ خود کو مصروف رکھیں، ورزش کریں، کھیل کود میں حصہ لیں اور مثبت سرگرمیوں میں خود کو ملوث کریں۔اچھی اور دینی ویب سائیٹس کا مطالعہ کریں اور ان سے راہ نمائی حاصل کریں۔
۷۔مخلوط تعلیمی نظام
مخلوط تعلیمی نظام کی بنا پر لڑکے اور لڑکی کو ایک دوسرے کے قریب رہنے کا موقع ملتا ہے۔ اس اختلاط کی بنا پر نگاہیں بے قابو ہوتیں اور خیالات برانگیختہ ہوتے رہتے ہیں۔ اسلام میں واضح ہدایت ہے کہ نگاہوں کو نیچی رکھو یعنی کسی کو شہوت کی نگاہ سے نہ دیکھو۔ چنانچہ پہلے تو اسی ہدایت پر عمل کیا جائے دوسرا یہ کہ کلاس لینے کے علاوہ کسی اور مقام پر صنف مخالف سے بے تکلفی نہ برتی جائے بلکہ اپنے ہم جنسوں ہی سے دوستی اور روابط رکھے جائیں۔
مشت زنی سے نجات کےلئے چند ہدایات
۱۔نگاہوں کی حفاظت کی جائے اور جونہی کوئی فحش منظر دیکھیں تو اس سے نظر ہٹالیں۔
۲۔ خیالات کو پاکیزہ رکھنے کی کوشش کی جائے اور کوئی فحش خیال آنے پر اللہ کا ذکر اور اسکی یاد شروع کردی جائے۔
۳۔نکاح میں عجلت کی جائے اور خود کو اپنی شریک حیات تک ہی محدود رکھا جائے۔ اگر نکاح کی استطاعت نہ ہو یا بیوی یا شوہرتک رسائی ممکن نہ ہو تو کثرت سے روزے رکھے جائیں۔
۴۔ غذا کو سادہ رکھا جائے تاکہ سفلی جذبات کم سے کم پیدا ہوں۔
۵۔ کسی گناہ کے سرزد ہونے کے بعد مایوس نہ ہوں بلکہ توبہ کرکے نئے سرے سے محنت میں لگ جائیں۔
۶۔ خود کو مصروف رکھیں اور زیادہ سے زیادہ مثبت سرگرمیاں شروع کریں۔
۷۔ جذبات کو بھڑکانے والی فلم ، ڈرامہ، ناول، سائٹ یا رسائل و جرائد سے پرہیز کریں۔۸۔ جسمانی مشقت کریں اور کسی کھیل کود یا جسمانی ورزش میں خود کو مصروف کریں۔

1 comment:

  1. السلام علیکم آپ کی تحریر اچھی ہیں اور کافی نالج ملتی ہے اس کے لئے آپ کا شکریہ۔۔مگر ساتھ ہی کچھ اشکال یا اعتراضات ہیں وہ یہ کہ آپ نے فحش کارٹونز کی فوٹوز ساتھ دی ہیں سمجھانے یا وضاحت کے لئے یا لوگوں کی اٹریکشن کے لئے جو آپ کی تحاریر سے مطابقت نہیں رکھتیں پلیز ان پر غور کیجئے اور اس خامی کو دور کیجئے۔ایک سوال بھی ہے کہ کیا ان بیماریوں کا علاج سب سے پہلے دی گئی دوا کے پوسٹرز ہوتے ہیں؟اور اگر کوئی بھی دوا بیرون ملک چاہئے ہو تو آپ کے پاس اسکا کوئی طریقہ کار ؟ہے

    ReplyDelete